Pages

Subscribe:

Ads 468x60px

Saturday 31 March 2012

ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب شیطانیاں سے

مہاتما بدھ کہتا ہے ۔“ اگر دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے مجھ سے پوچھا جاتا اور مجھے چوائس ملتی تو میں بوڑھا پیدا ہوتا اور بچہ ہو کر مرتا ۔“ ہر آدمی چاہے وہ کتنا بھی جوان نظر آنا چاہے مگر وہ رہنا بوڑھوں کی طرح چاہے گا ۔

ہر پرانی چیز قیمتی ہوتی ہے ۔ پرانا تو جھوٹ بھی نئے سچ سے زیادہ قابل اعتبار ہوتا ہے انسان کی جتنی عزت بڑھاپے میں ہوتی ہے اتنی ساری زندگی نہیں ہوتی جس کی وجہ یہ ے کہ بڑھاپے میں اس لیے عزت ہوتی ہے کہ اس وقت تک بندے کو جاننے والے ہم عمر بہت کم زندہ ہوتے ہیں ، دنیا میں کوئی بوڑھا بے وقوف نہیں ہوتا ، کیونکہ جو بے وقوف ہوتا ہے وہ بوڑھا نہیں ہوتا ۔

دنیا میں تین قسم کے بوڑھے ہوتے ہیں ایک وہ جو خود کو بوڑھا سمجھتے ہیں دوسرے وہ جنھیں دوسرے بوڑھا سمجھتے ہیں اور تیسرے وہ جو واقعی بوڑھے ہوتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ مخلص ، بوڑھا مخلص ہوتا ہے اور سب سے برا دشمن بوڑھا دشمن کیونکہ اس کا اپنا تو کوئی مستقبل نہیں لیکن وہ آپ کا مستقبل خراب کرا سکتا ہے ۔

بڑھاپے کی اس سے زیادہ برائی اور کیا ہوگی کہ آپ کو پاکستان کا صدر بننے کے لیے جس کوالیفیکیشن کی ضرورت ہے وہ صرف بڑھاپا ہے ۔

دنیا میں جتنی عبادت ہوتی ہے اس میں نوے فیصد بڑھاپے میں ہوتی ہے ۔مجھے تو لگتا ہے قیامت میں بخشے نہ جانے والے لوگوں میں زیادہ تر وہی ہوں گے جنھیں بوڑھا ہونے کا موقع نہیں ملا ہوگا ، اس دنیا کو جنت بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام انسانوں کو بوڑھا کر دیا جائے ۔

( ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب شیطانیاں سے اقتباس )

کانٹا

کانٹا کہہ رہا تھا 
۔۔’’میں بظاہر بہت چھوٹا ہوں لیکن بہت طاقتور ہوں میری فطرت میں چبھنا ہے میں کسی بھی شئے کو تکلیف پہنچا کر اُسے مٹا سکتا ہوں . یہ پھول . یہ شاخ. یہ درخت سب میرے نزدیک حقیر و کمتر ہیں پھر ایک دن اُسنے جس شاخ پر جنم لیا تھا اُسے ہی چبھ کر تکلیف دینے لگا لیکن اُسے مٹانے کی کوشش میں وہ خود ہی زمین پر آرہا ۔ تب اُسے معلوم ہوا کہ درخت تو بڑا تناور ہے وہ شاخ جس پر اُسنے جنم لیا تھا اب بھی سر سبز و شاداب ہے۔ پھول اپنی خوشبوسے ماحول کو حسب معمول معطر کر رہے ہیں۔ وہ جنھیں حقیر و ذلیل سمجھتا تھا وہ تو بلند و برتر ہیں۔
حقیر و ذلیل تو وہ خود ہے۔ !!.‘‘

شفیق الرحمن کی کتاب "مدّو جزر" کے مضمون "مدّو جزر"



یہ زندگی کتنی عجیب ہے۔ نہ ہم زندگی کو سمجھتے ہیں اور نہ زندگی ہمیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھتے۔
ابھی پرسوں میں کس قدر مختلف تھا۔ میرے دل میں اُ منگیں تھیں، زندگی کی تمام خوشیاں مجھ پر مسکراتی تھیں، میرے دل میں زندہ رہنے کی خواہش تھی‘ بلند عزائم تھے‘ آہنی حوصلے تھے‘ چٹان کی طرح مضبوط دل تھا۔ اور اب میں اتنی سی دیر میں اُس بچے کی طرح رو رہا ہوں‘ جس کا کھلونا ٹوٹ گیا ہو۔

(اقتباس: شفیق الرحمن کی کتاب "مدّو جزر" کے مضمون "مدّو جزر" کے صفحہ نمبر "243-244" سے)

از اشفاق احمد زاویہ ۔۔۔۔۔۔ بابے کی تلاش

فلم شروع ہوئی اور ہال میں بلکل اندھیرا چھا گیا - تھوڑی دیر کے بعد ہال کا دروازہ کھلا اور ایک اور تماشائی اندر داخل ہوا - میں نے پلٹ کے دیکھا - وہ مجھے نظر تو نہیں آیا کیونکہ دروازہ بند ہوگیا تھا - جب دروازہ کھلا تھا تو اندر آنے والے شخص کا وجود مجھےنظر آیا تھا - میں سوچنے لگا کہ یہ آدمی تو کسی صورت بھی اپنی سیٹ پر نہیں پہنچ سکتا ، لیکن تھوڑی ہی دیر میں ایک ٹارچ چلی اور اس ٹارچ نے اس شخص کے پاؤں کے اوپر ایک چھوٹا سا ہالہ بنایا اور اس ہالے کی مدد سے وہ شخص چلتا گیا ٹارچ والا اس کے پیچھے پیچھے آتا گیا اور جہاں اس شخص کی سیٹ تھی بٹھا دیا گیا - اس کے بعد میں نے پھر فلم تو کم دیکھی - یہی سوچتا رہا کہ اگر کسی شخص کی زندگی میں ایسا ہالہ آئے اور کوئی گائیڈ کرنے والا اسے میسر ہو تو پھر وہ شخص یقیناً اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے - لیکن اس کے لئے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے - سینما کا رخ کرنا پڑتا ہے اور فلم لگنے کے اوقات کا علم ہونا چاہیے - دروازہ کھلنا چاہیے پھر ٹارچ والا خود بخود آ کرمدد کرتا ہے اور آپ کو مدد کے لئے کسی کو پکارنے یا آوازیں دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے

از اشفاق احمد زاویہ ۔۔۔۔۔۔ بابے کی تلاش

بانو قدسیہ ” کی کتاب ”امر بیل ” سے اقتباس

بانو قدسیہ ” کی کتاب ”امر بیل ” سے اقتباس 
اللہ تعالیٰ شاکی ہے کہ اتنی نعمتوں کے باوجود آدم کی اولاد ناشکری ہے اور انسان ازل اور ابد تک پھیلے ہوئے خدا کے سامنے خوفزدہ کھڑا بلبلا کر کہتا ہے ۔
یا باری تعالیٰ ! تیرے جہاں میں آرزوئیں اتنی دیر سے کیوں پوری ہوتی ہیں ؟
زندگی کے بازار میں ہر خوشی اسمگل ہو کر کیوں آتی ہے ؟
اس کا بھاؤ اس قدر تیز کیوں ہوتا ہے کہ ہر خریدار اسے خریدنے سے قاصر نظر آتا ہے ۔
ہر خوشی کی قیمت اتنے ڈھیر سارے آنسوؤں سے کیوں ادا کرنا پڑتی ہے ۔آقائے دوجہاں ایسے کیوں ہوتا ہے کہ جب بالاآخر خوشی کا بنڈل ہاتھ میں آتا بھی ہے تو اس بنڈل کو دیکھ کر انسان محسوس کرتا ہے کہ دکاندار نے اُسے ٹھگ لیا ہے۔
جو التجا کی عرضی تجھ تک جاتی ہے اُس پر ارجنٹ لکھا ہوتا ہے اور جو مُہر تیرے فرشتے لگاتے ہیں اُس کے چاروں طرف صبر کا دائرہ نظر آتا ہے۔
ایسا کیوں ہے باری تعالیٰ ؟؟؟؟؟؟؟؟
جس مال گاڑی میں تو انسانی خوشی کے بنڈل روانہ کرتا ہے وہ صدیوں پہلے چلتی ہے اور قرن بعد پہنچتی ہے لوگ اپنے اپنے نام کی بُلٹی نہیں چھڑاتے بلکہ صدیوں پہلے مر کھپ گئی ہوئی کسی قوم کی خوشی کی کھیپ یوں آپس میں بانٹ لیتے ہیں جیسے سیلاب زدگان امدادی فنڈ کے سامنے معذور کھڑے ہوں ۔
خوشی کو قناعت میں بدلنے والے رب سے کوئی کیا کہے،جب کہ آج تک اُس نے کبھی انسان کی ایجاد کردہ گھڑی اپنی کلائی پر باندھ کر دیکھی ہی نہیں۔۔۔

بشر یٰ سعید کے نا ول اما وس کا چا ند سے اقتباس



خو شی تو بہت عا رضی ،نہا یت فا نی ہو تی ہے ۔ دیر پا اور عمر بھر سا تھ نبھا نے والے تو غم ہو تے ہیں ۔ درد کا داغ تو پو نم کے چا ند کی ما نند تا عمر روح کی پیشانی پر دمکتا رہتا ہے ۔کبھی سا تھ نہیں چھو ڑتا ۔دکھ بہت طو یل ہو تے ہیں اما وس کی راتوں جیسے ،گر ما کی دو پہروں جیسے ،ایک ایک پل صدیوں پہ محیط ہو تا ہے ۔ آنکھیں سا ون کے با دلو ں کی طر ح بر س بر س کر صحراوں کا روپ دھا ر لیتی ہے ،مگر درد کی آگ بجھنے نہیں پا تی ـــــ


بشر یٰ سعید کے نا ول اما وس کا چا ند سے اقتباس

ممتاز مفتی الکھ نگری



اسے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ شیخ نو مسلم تھے اور بنیوں کےخواص ابھی ان میں باقی تھے۔ لینا ہوتا تو ہاتھ آگے بڑھاتے۔ دینا ہوتا تو ہاتھ پیچھے کر لیتے۔
شیخوں کی اس خصلت پر کسی زندہ دل شیخ نے ایک لطیفہ گھڑ رکھا تھا کہ ایک شیخ کسی گڑھے میں گر گیا' بہت کوشش کی' لیکن باہر نکل نہ سکا۔
اتنے میں ایک آدمی ادھر سے گزرا۔ شیخ نے با آواز بلند شور مچایا کہ مجھے اس گڑھے سے نکالو۔ راہ گیر نےاپنا ہاتھ بڑھایا بولا شیح جی مجھے اپنا ہاتھ دیں۔ لیکن شیخ چپ چاپ کھڑا رہا۔
راہ گیر نے کئی ایک بار کہا۔۔ شیخ جی اپنا ہاتھ دیں' لیکن شیخ نے ہاتھ نہ دیا۔ راہ گیر حیران تھا کہ گڑھے سے نکلنا تو چاہتے ہیں لیکن ہاتھ نہیں دیتے۔ اتنے میں ایک بوڑھا شیخ آ گیا۔ راہ گیر نے کہا میں کب سے کہہ رہا ہوں کہ دیجئے اپنا ہاتھ۔ لیکن یہ ہاتھا بڑھاتے ہی نہیں۔ اس پر بوڑھا ہنسے لگا۔ بولا بر خودار شیخ دے گا نہیں۔ تم کہو شیخ لیجئے میرا ہاتھ۔ تو وہ جھٹ اپنا ہاتھ بڑھا دے گا۔ 
ممتاز مفتی'الکھ نگری صفحہ: 39

سوال جواب واصف علی واصف



اہلِ ظاہر کو ان سوالات کے جوابات سوچنے پڑھتے ہیں۔ الِ باطن پر جواب پہلے آشکار ہوتا ہے، سوال بعد میں* بنتا ہے۔
اگر جواب معلوم نہ ہو تو سوال گستاخی ہے اور اگر جواب معلوم ہو تو سوال بے باکی ہے۔ بے باکی میں تعلق قائم رہتا ہے اور گستاخی میں* تعلق ختم ہو جاتا ہے۔
اگر ہم ذہن سے سوچیں تو سوال ہی سوال ہیں اور اگر دل سے محسوس کریں تو جواب ہی جواب۔
اگر ہم اس کے ہیں تو وہ ہمارا ہے۔ جواب ہی جواب۔ اگر ہم صرف اپنے لئے ہیں، تو ہم پر عزاب ہے۔ علم کا عزاب، ذہن کا عزاب، سوال ہی سوال۔

سوال دراصل ذہن کا نام ہے اور جواب دل کا نام۔ ماننے والا جاننے کے لئے بے تاب نہیں* ہوتا اور جاننے کا متمنی ماننے سے گریز کرتا ہے۔
شک سوال پیدا کرتا ہے اور یقین جواب مہیا کرتا ہے۔ شک یقین کی کمی کا نام ہے اور یقین شک کی نفی کا نام۔ یقین، ایمان ہی کا درجہ ہے۔

آسمانوں ااور زمین کے تمام سفر سوالات کے سفر ہیں لیکن دل کا سفر جواب کا سفر ہے۔ ان سوالات کے جوابات دانس وروں سے نہ پوچھیں، اپنے دل سے پوچھیں۔ اس دل سے جو گداز ہونے کا دعویٰ بھی رکھتا ہے

Friday 30 March 2012

ممتاز مفتی کی کتاب الکھ نگری


اللہ بے بسی کے عالم میں ہمارے لیے ایک عظیم سہارا ہے۔ تھکے ہارے ہوئے بوجھل سر کے لیے ایک تکیہ ہے جس پر سے رکھ کر ہم سکون پاسکتے ہیں۔

(اقتباس: ممتاز مفتی کی کتاب "الکھ نگری" کے بیسواں باب "چھ حسین لڑکیاں - میوٹنی" کے صفحہ نمبر "331" سے)

قدرت اللہ شہاب کی “ شہاب نامہ “ سے اقتباس

کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے... کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں پڑتے۔ اس میں روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔

عشق میں حساب کتاب



مولانا رومی ایک دن خرید و فروخت کے سلسلے میں بازار تشریف لے گئے۔ایک دکان پر جا کر رک گئے۔دیکھا کہ ایک عورت کچھ سودا سلف لے رہی ہے۔سودا خریدنے کے بعد اس عورت نے جب رقم ادا کرنی چاہی تو دکان دار نے کہا،“عشق میں حساب کتاب کہاں ہوتا ہے،چھوڑو پیسے اور جاؤ۔“
مولانا رومی یہ سن کر غش کھا کر گر پڑے۔دکان دار سخت گھبرایا اس دوران وہ عورت وہاں سے چلی گئی۔خاصی دیر بعد جب مولانا رومی کو ہوش آیا تو دکاندار نے پوچھا،
“مولانا صاحب آپ کیوں بے ہوش ہو ئے؟“
مولانا رومی نے جواب دیا،
“میں اس بات پر بے ہوش ہوا کے تم دونوں میں اتنا قوی اور مضبوط عشق ہے کہ آپس میں کوئی حساب کتاب نہیں جب کہ اللہ کے ساتھ میرا عشق کتنا کمزور ہے کہ میں تسبیح کے دانے گن گن کر گراتا ہوں۔“

خیال

جب بات جملوں سے سمٹ کر لفظوں میں ڈھل جائے، احساسات ہونٹوں کی بجائے آنکھوں سے ادا ہونے لگیں تو باہر سے اندر کا سفر شروع ہوتا ہے۔

حُسن شناس

حُسن ظاہری ہو یا باطنی، خوبصورت ہو یا خوب سیرت، حُسنِ اخلاق ہو یا حُسنِ ذوق۔ انہیں رکھنے والے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنی خصوصیت سے نا بلد اور بے خبر ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جو باخبر ہوتے ہیں، مگر بے ہوش ہوتے ہیں۔ تیسری اور سب سے خطرناک قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو با خبر بھی ہوتے ہیں اور با ہوش بھی۔میرا خیال ہے کہ ان میں سب سے زیادہ فائدے میں پہلی قسم کے لوگ رہتے ہیں کہ بے خبری اور نا سمجھی، غرور اور تکبر میں پڑنے سے بچا لیتی ہے اور عجز کا بیج بو دیتی ہے۔

حُسن

حُسن ظاہری ہو یا باطنی، سراہنے کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ چاہنے کے لیے ہوتا ہے۔ کیونکہ سراہنے والا کھرا اور کھوٹا دونوں ہو سکتا ہے، مگر چاہنے والا زیادہ تر کھرا ہی نکلتا ہے۔

Thursday 15 March 2012

محبت بھری نیکی

 


کیا آپ نے کبھی کسی کو اچانک کوئی تحفہ بھیجا ہے? نہ اُن کی سالگرہ ہو، نہ عید اور نہ ہی کوئی اور تہوار۔ مگر ایک دن آپ اُنہیں بہت محبت سے اپنے ہاتھوں سے ایک کارڈ بنا کر بھیج دیں۔ ساتھ میں اپنے گارڈن کے کچھ پھول ہو جایئں تو کیا ہی بات بن جائے۔ یقین مانئیے، جتنی خوشی وہ انسان اپنے اندر محسوس کرے گا، اس سے کئی زیادہ آپ اپنی اس پیاری اور محبت بھری نیکی پر کریں گے۔ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو تحفے دینے سے محبت بڑھتی ہے اور ایک بہت ہی اطمینان بخش احساس نصیب ہوتا ہے۔ کسی دن آزمایئے گا، خود ہی جان جایئں گے

نیکی کیا ہے

نیکی ہے کیا
کوئی سا بھی وہ کام جس کو کرنے سے دل ایک نا قابلِ بیان خوشی اور سکون محسوس کرے۔ کوئی بہت غصے میں ہو  اور آپ کا اُن کو مُسکرا کر دیکھ لینا بھی نیکی ہے۔ کبھی کسی جگہ، کسی کو قلم کی ضرورت پڑے اور آپ کا آگے بڑھ کر انہیں اپنا قلم پیش کرنا بھی نیکی ہے۔ کوئی جلدی میں ہو اور آپ کا اُنہیں راستہ دینا بھی نیکی ہے۔ آپ جس بس یا ٹیکسی میں سفر کرتے ہیں، اُس سے نکلتے وقت ڈرائیور کو شکریہ کہنا بھی نیکی ہے۔
نیکیاں حاصل کرنے کی آرزو جب پیدا ہو جائے تو اللہ سبحان و تعالیٰ ہمارے دل کو اتنا روشن کر دیتے ہیں کہ ہم ہر وقت اپنے ارد گرد نظر رکھتے ہیں کہ کہیں کسی کو ہماری وجہ سے خوشی ملتی ہو، کسی کو لمحے بھر کے لئیے سکون ملتا ہو تو ہم اُس کی طرف دوڑ پڑیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا ثبوت تو یہ ہی ہے نہ کہ ہم اُس کی مخلوق کی مدد کریں اور اُن کا غم کم کریں۔

Wednesday 14 March 2012

چھوٹی چھوٹی نیکیاں

First half of the month  کے لیئے ہمارا موضوع ہے۔ چھوٹی چھوٹی نیکیاں۔
حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرما یا ہے کہ:
اپنی زنگی میں ہم جتنے دل راضی کریں، اتنے ہی ہماری قبر میں چراغ جلیں گے۔ ہماری نیکیاں ہمارے مزار روشن کرتی ہیں۔ سخی کی سخاوت اس کی اپنی قبر کا دیا ہے۔ ہماری اپنی صفات ہی ہمارے مرقد کو خوشبودار بناتی ہیں۔ زندگی کے بعد کام آنے والے چراغ زندگی میں ہی جلائے جاتے ہیں۔ کوئی نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔
بیشک ہماری کوئی نیکی رایئگاں نہیں جاتی۔ ہمارے پیارے اللہ سبحان و تعالیٰ، ہمارے بڑے سے بڑا گناہ بخش دیتے ہیں۔ (بیشک ہمارا ربّ بہت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے) ، مگر ہماری چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا اجر ہمیں اس دنیا اور اُس دُنیا میں ضرور ملتا ہے۔
نیکیاں کرنا اور انہیں پانا بہت ہی آسان ہے۔ اس کے لیئے نہ تو ہمیں بہت بڑے سرمایے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سوشل اسٹیٹس کی۔
نیکیاں تو قدم قدم پر بکھری پڑی ہیں اور ہمیں بس ہاتھ بڑھا کر انہیں سمیٹنا ہے۔
چلیں، تین چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی لسٹ بناتے ہیں اور انہیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1)  ہر ملنے جلنے والے کو سلام کریں گے۔ چاہے اس سے کوئی ناراضگی ہی کیوں نہ ہو۔
2) کسی بھی مال یا سنٹر میں داخل ہوتے ہوئے، اپنے پیچھے آنے والوں کے لئیے دروازہ کھولیں گے اور انہیں پہلے اندر جانے دیں گے۔
3) بس یا ٹرین میں چڑھتے وقت دوسروں کو پہلے داخل ہونے کا موقع دیں گے۔
یہ نیکیاں انشا ء اللہ تعالیٰ ہم ابھی سے کرنا شروع کرتے ہیں اور اگلے پورے ہفتے کے لئیے یہ ہمارا گول ہو گا۔ اور ایک ہفتے بعد ہم اپنا احتساب کریں گے اور دیکھیں گے کہ ہم نے کتنی نیکیاں کمائی۔

تعارف


السلام و علیکم
یہ بلاگ بنانے کا خیال اچانک ہی آ گیا۔ چند دن پہلے سچی دوستی فورم پر ایک ممبر نے ایک تھریڈ لگائی تھی۔ "وہ باتیں جو اب ہم میں نہیں" کے عنوان سے۔ اس کے کچھ دن بعد میرے ذہن میں خیال آیا کے کیوں نہ اسی موضوع کو زہن میں رکھتے ہوئے ایک بلاگ بناؤں اور اس میں روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے ایسے واقعات بیان کروں، جن سے ہم بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے، مگر ہم نے وہ لمحے گنوا دیے۔ بڑے بڑے بزرگوں اور دانشورں کی چھوٹی چھوٹی مگر بہت ہی اہم اور روشن باتیں، جن پر اگر ہم عمل کریں تو انسان ہونے کا ثبوت دے دیں اور خود کو خالقِ کائنات کا شاہکار ثابت کر دیں۔
میں یہاں پر مختلف لکھاریوں اور اپنے وقتوں کا باباؤں کی باتیں شئیر کروں گی، اس اُمید کے ساتھ کے ہم انہیں اپنی زندگیوں میں لاگو کریں گے اور اپنا انسانی فرض پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ انشا ء اللہ تعالیٰ۔