یہ زندگی کتنی عجیب ہے۔ نہ ہم زندگی کو سمجھتے ہیں اور نہ زندگی ہمیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھتے۔
ابھی پرسوں میں کس قدر مختلف تھا۔ میرے دل میں اُ منگیں تھیں، زندگی کی تمام خوشیاں مجھ پر مسکراتی تھیں، میرے دل میں زندہ رہنے کی خواہش تھی‘ بلند عزائم تھے‘ آہنی حوصلے تھے‘ چٹان کی طرح مضبوط دل تھا۔ اور اب میں اتنی سی دیر میں اُس بچے کی طرح رو رہا ہوں‘ جس کا کھلونا ٹوٹ گیا ہو۔
(اقتباس: شفیق الرحمن کی کتاب "مدّو جزر" کے مضمون "مدّو جزر" کے صفحہ نمبر "243-244" سے)
0 comments:
Post a Comment