محبت وہ ہے جو میرا رب کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بہت بڑا بہروپیا ہے۔ ایک اتھاہ خلا میں خلا کی چادر اوڑھے بیٹھا ہے۔ ڈھونڈنے نکلو تو زندگیاں ختم ہو جائیں پر اسکا نشاں تلک نہ ملے اور چھپنا چاہو تو گلی کی نکڑ سے کچھہ ایسی بے تکلفی سے صدائیں لگاتا ہے جیسے ہمارے بیچ کوئی فاصلہ کبھی تھا ہی نہیں۔
ہمیں درخت کے بیچ رکھہ کر کند آرے سے کاٹا جائے یا پھر پورے خاندان کے ساتھھ زندہ جلا دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شکر سے کم کسی شئے پر مانتاہی نہیں۔
اس سے محبت کے دعویداروں کو نوید ہو کہ وہ بے نیاز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم تمام عمر اسکی کھڑکی کے سامنے پھولوں کے ڈھیر جمع کرتے رہو تو وہ شائید تمہیں اِک جھلک دکھلانے کا بھی سزاوار نہ سمجھے۔ تمہاری عمر بھر کی ریاضتیں، تمہاری عبادتوں سے لتھڑی ہوئی آنکھیں، تمہاری قربانیوں کے گھنگھور بادل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں اتنا حق بھی نہیں دیتے کہ تم معاف ہی کر دیے جاو۔ اور اسکی نگاہِ التفات تو ہے ہی ایسی متاع کہ جس کا خواب بھی دیکھنا تمہاری اوقات نہیں۔
وہ جان دیتا ہے تو حق ہے۔ وہ جان لیتا ہے تو حق ہے۔ عمر بھر کی رنگین اور گناہ آلودہ زندگی گذارنے پر وہ کسی کو جنت میں اعلی ترین مقام دے دے تو اسکی محبت ہے اور تمام عمر اللہ کی چاہت میں غربت و افلاس کے تھپیڑے صبر سے کھانے والے کیلئے جہنم کا دروازہ کھول ڈالے تو یہ بھی محبت ہے۔ مجھھ سے کیا پوچھتے ہو کہ حق کیا ہے ، محبت کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حق وہ ہے جو میرا رب چاہے۔ محبت وہ ہے جو میرا رب کرتا ہے۔
اور وہ جو جھولیاں اٹھا اٹھا کر میرے رب سے انصاف مانگتے ہیں انہیں خبر دے دو کہ انصاف کی ایک بوند بھی اگر آسمانِ دنیا پر رحمتِ الہی کی مٹھیوں سے چھلک جاتی تو اس کرہ ارض پر آج ایک بھی ذی روح سانس نہ لیتا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ ہم مٹی کے بے حقیقت پتلے اپنی نفسانی خواہشات کے دبیز پردوں سے انصاف کو نہیں دیکھھ سکتے۔ انصاف تو بس وہ ہے جو میرا رب کرتا ہے۔
جب ہمارا تین سال کا اکلوتا بیٹا دوا نہ ملنے پر تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے تو یہ عین انصاف ہے اور ٹھیک اسی وقت اگر پڑوسی اپنی دولت کے بل بوتے پر قتل کے مقدمے سے چھوٹ جاتا ہے تو یہ بھی انصاف ہے۔
مجھھ سے کیا پوچھتے ہو کہ انصاف کیا ہے؟ انصاف وہ ہے جو میرا رب کرتا ہے۔
اور اس دنیا میں بھلا کیا ہے جو میرا رب نہیں کرتا؟ ہر شئے اسی کی عطا ہے۔ اور عطا ایسی نعمت ہے کہ جو فقیروں کو پل بھر میں جاگیردار بنا دے پر ساتھھ ہی عطا کوئی حق نہیں جسے قاضیوں کی عدالتوں، بادشاہوں کے درباروں میں زبردستی مانگ لیا جائے۔
جب بتا دیا گیا ہے کہ دنیا دھوکہ ہے تو یقین کر لو کہ سورج سورج نہیں ہے، ہوا ہوا نہیں ہے۔ سمندر، عمارتوں اور جانوروں کی تو بساط ہی کیا ہے ہم بھی ہم نہیں ہیں۔ کسے خبر کہ ایک بہت بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہو اور ہم گویا اسٹیج پر تھرکتی پتلیاں ہوں۔ ہم ناچ سکتے ہیں۔ ہماری زندگی سے قریب آوازیں لوگوں کو ہمارے ہونے کا گماں بھی دلا سکتی ہیں لیکن تھیٹر کی بتیاں بجھانے کے بعد ہم سب پتلوں کو ایک اندھیرے کمرے میں رکھے آہنی بکسے میں ڈال دیا جائے گا اور کچھ اس شان سے کہ دن بھر کے جانی دشمن رات بھر ایکدوسرے سے لپٹے رہیں گے۔ بادشاہ کا پتلا ایسے پڑا ہو گا کہ اسکی کلاہ کسی دہقان کے قدموں میں پڑی ہو گی۔
اور ہم بے حقیقت ، دھوکے کے سمندر میں تیرتے کیچوے انصاف اور محبت کی باتیں کرتے ہیں۔ خاموش ہو جاو کہ محبت و انصاف بس وہ ہیں جو میرا رب کرتا ہے۔ اگر تم میں طاقت ہے تو زور لگاو اور اس محبت و انصاف میں گندھی کائنات کی حدوں سے باہر نکل جاو۔ پر تم ایسا نہیں کر سکو گے (یقینا تم ایسا نہیں کر سکو گے)۔ تو کم ازکم ایک بار تو زندگی میں اسکی محبت کو اس طرح محسوس کرو جیسے محسوس کرنے کا حق ہے۔ ایک دفعہ تو اسکے بے داغ انصاف کے آگے سر نہیں دل بھی جھکا دو جیسے کہ مان جانے کا حق ہے
سید اسد علی